ایم تقی عثمانی
|
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، یہ مدت ان کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں، اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے، ۔ (ہاں) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی، نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے پھر اگر وہ دونوں (یعنی والدین) آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے (دو سال گزرنے سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں بھی ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر تم یہ چاہو کہ اپنے بچوں کو کسی انا سے دودھ پلواؤ تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جبکہ تم نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ (دودھ پلانے والی انا کو) بھلے طریقے سے دے دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے سارے کاموں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
|
ابو الاعلی مودودی
|
جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے
|
احمد رضا خان
|
اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہئے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کے مقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،
|
احمد علی
|
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں یہ اس کے لیے ہے جو دودھ کی مدت کو پورا کرنا چاہے اور باپ پر دودھ پلانے والیوں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق ہے کسی کو تکلیف نے دی جائے مگر اسی قدر کہ اس کی طاقت ہو نہ ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ باپ ہی کو اس کی اولاد کی وجہ سے اور وارث پر بھی ویسا ہی نان نفقہ ہے پھر اگر دونوں اپنی رضا مندی اور مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر کسی اور سے اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ تم دے دو جو دستور کے مطابق تم نے دینا ٹھرایا ہے اور الله سے ڈرو اور جان لو کہ الله اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھتا ہے
|
فتح جالندھری
|
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
|
طاہر القادری
|
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے،
|
علامہ جوادی
|
اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی جو رضاعت کو پورا کرنا چاہے گا اس درمیان صاحب اولاد کا فرض ہے کہ ماؤں کی روٹی اور کپڑے کا مناسب طریقہ سے انتظام کرے. کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاسکتی. نہ ماں کو اس کی اولاد کے ذریعہ تکلیف دینے کا حق ہے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے ذریعہ. اور وارث کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسی طرح اجرت کا انتظام کرے. پھر اگر دونوں باہمی رضامندی اور مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر تم اپنی اولاد کے لئے دودھ پلانے والی تلاش کرنا چاہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ متعارف طریقہ کی اجرت ادا کردو اور اللہ سے ڈرو اور یہ سمجھو کہ وہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے
|
ایم جوناگڑھی
|
مائیں اپنی اوﻻد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراده دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو۔ ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو۔ ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اوﻻدکی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے۔ وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناه نہیں اور اگر تمہارا اراده اپنی اوﻻد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناه نہیں جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وه ان کے حوالے کردو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے
|
حسین نجفی
|
اور (طلاق کے بعد) جو شخص (اپنی اولاد کو) پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے تو مائیں اپنی اولاد کو کامل دو برس تک دودھ پلائیں گی۔ اور بچہ کے باپ پر (اس دوران) ان (ماؤں) کا کھانا اور کپڑا مناسب و معروف طریقہ پر لازم ہوگا۔ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت و آسائش سے زیادہ تکلیف نہیں دی جا سکتی۔ نہ تو ماں کو نقصان پہنچایا جائے اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ ہی باپ کو زیاں پہنچایا جائے اس کے بچہ کے سبب سے اور (اگر باپ نہ ہو تو پھر) وارث پر (دودھ پلانے اور نان و نفقہ کی) یہی ذمہ داری ہے۔ اور اگر دونوں (ماں باپ اس مدت سے پہلے) باہمی مشورہ و رضامندی سے بچہ کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو (کسی دایہ سے) دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی جرم نہیں ہے بشرطیکہ جو مناسب طریقہ سے دینا ٹھہرایا ہے (ان کے) حوالے کر دو۔ اور خدا (کی نافرمانی سے) ڈرو اور خوب جان لو کہ تم جو کچھ کرتے ہو۔ اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔
|
M.Daryabadi:
|
And mothers shall suckle their children two whole years: this is for him who intendeth that he shall complete the suckling; and on him to whom the child is born, is their provision and clothing reputably; not a soul is tasked except according to its capacity. Neither shall a mother be hurt because of her child, nor shall he to whom the child is born because of his Child; and on the heir shall devolve the like thereof. Then if the twain desire weaning by agreement between them and mutual counsel, on the twain is no blame. And if ye desire to give your children out for suckling, On you is no blame when ye hand over that which ye had agreed to give her reputably. And fear Allah, and know that of that which ye work Allah is the Beholder.
|
M.M.Pickthall:
|
Mothers shall suckle their children for two whole years; (that is) for those who wish to complete the suckling. The duty of feeding and clothing nursing mothers in a seemly manner is upon the father of the child. No one should be charged beyond his capacity. A mother should not be made to suffer because of her child, nor should he to whom the child is born (be made to suffer) because of his child. And on the (father's) heir is incumbent the like of that (which was incumbent on the father). If they desire to wean the child by mutual consent and (after) consultation, it is no sin for them; and if ye wish to give your children out to nurse, it is no sin for you, provided that ye pay what is due from you in kindness. Observe your duty to Allah, and know that Allah is Seer of what ye do
|
Saheeh International:
|
Mothers may breastfeed their children two complete years for whoever wishes to complete the nursing [period]. Upon the father is the mothers' provision and their clothing according to what is acceptable. No person is charged with more than his capacity. No mother should be harmed through her child, and no father through his child. And upon the [father's] heir is [a duty] like that [of the father]. And if they both desire weaning through mutual consent from both of them and consultation, there is no blame upon either of them. And if you wish to have your children nursed by a substitute, there is no blame upon you as long as you give payment according to what is acceptable. And fear Allah and know that Allah is Seeing of what you do.
|
Shakir:
|
And the mothers should suckle their children for two whole years for him who desires to make complete the time of suckling; and their maintenance and their clothing must be-- borne by the father according to usage; no soul shall have imposed upon it a duty but to the extent of its capacity; neither shall a mother be made to suffer harm on account of her child, nor a father on account of his child, and a similar duty (devolves) on the (father's) heir, but if both desire weaning by mutual consent and counsel, there is no blame on them, and if you wish to engage a wet-nurse for your children, there is no blame on you so long as you pay what you promised for according to usage; and be careful of (your duty to) Allah and know that Allah sees what you do.
|
Yusuf Ali:
|
The mothers shall give such to their offspring for two whole years, if the father desires to complete the term. But he shall bear the cost of their food and clothing on equitable terms. No soul shall have a burden laid on it greater than it can bear. No mother shall be Treated unfairly on account of her child. Nor father on account of his child, an heir shall be chargeable in the same way. If they both decide on weaning, by mutual consent, and after due consultation, there is no blame on them. If ye decide on a foster-mother for your offspring, there is no blame on you, provided ye pay (the mother) what ye offered, on equitable terms. But fear Allah and know that Allah sees well what ye do.
|