Home-ویب پیج

Chapter No 2-پارہ نمبر                   The Cow-2 سورت البقرۃ Ayah No-229 ایت نمبر

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
آسان اُردو طلاق دو دفعہ ہے پھر( بیوی کو)دستور (معروف)سے رکھ لینا ہے یا اچھائی (باعزت طریقے )سے چھوڑ دینا ہے اور تمہارے ( یعنی خاوندکے )لیے حلال نہیں ہے کہ تم اُس میں سے کچھ لے لو جو چیز بھی تم ان(عورتوں) کو دے چکے ہو ؛ ماسوائے اس کے کہ اُن دونوں (میا ں بیوی) کو خوف ہو کہ اللہ کی( بنائی ہوئی میاں بیوی کی )حدودکو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور اگرتمہیں ڈر ہو کہ وہ(میا ں بیوی) اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، تو اُن دونوں(خاوند، بیوی) پر کوئی گناہ نہیں اُس میں جس سے(وہ بیوی) فدیہ (معاوضہ) دے (کر آزاد ہو جائے)یہ اللہ کی (بنائی ہوئی )حدود ہیں پس ان کو نہ توڑواور جو کوئی اللہ کی (بنائی ہوئی)حدود کو توڑتا ہے: پھر یہی (لوگ) وہی ظالم(نافرمانبردار ہوتے) ہیں
(آسان اُردو ترجمے میں بریکٹ میں لکھے الفاظ، قرآن کی عبارت کا حصہ نہیں۔ یہ صرف فقرہ مکمل کرنے اور سمجھانے کے لیےہیں)
===============================
ایم تقی عثمانی اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں اور اگر وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں تو ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ (حمل یا حیض) پیدا کیا ہے اسے چھپائیں، اور اس مدت میں اگر ان کے شوہر حالات بہتر بنانا چاہیں تو ان کو حق ہے کہ وہ ان عورتوں کو (اپنی زوجیت) میں واپس لے لیں۔ اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے ،۔
ابو الاعلی مودودی طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں
احمد رضا خان یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے، یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں،
احمد علی طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے اور تمہارے یے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے مگر یہ کہ دونوں ڈریں کہ الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے پھر اگرتمہیں خوف ہو کہ دونوں الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑالے یہ الله کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اورجو الله کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں
فتح جالندھری طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔ اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
طاہر القادری طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتۂ زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں،
علامہ جوادی طلاق دو مرتبہ دی جائے گی. اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کردیا جائے گا اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ یہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے. لیکن یہ حدود الہٰیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا
ایم جوناگڑھی یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو، اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناه نہیں یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وه ﻇالم ہیں
حسین نجفی اور طلاق (رجعی) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو اچھے طریقہ سے روک لیا جائے گا یا بھلائی کے ساتھ رخصت کر دیا جائے گا۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں (بطورِ زر مہر اور ہدیہ و تحفہ) دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں (میاں بیوی) کو اندیشہ ہو کہ وہ خدا کی قائم کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر (اے مسلمانو!) تمہیں بھی یہ خوف ہو کہ وہ حدودِ الٰہیہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو (اس صورت میں) عورت کو (بطورِ فدیہ خلع) کچھ معاوضہ دینا چاہیے (اور دے کر اپنی جان چھڑانا چاہیے) تو اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ خدا کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو لوگ خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں۔
=========================================
M.Daryabadi: Divorcement is twice: thereafter either retaining her reputably, or letting her off kindly. And it is not allowed unto you to take away aught ye have given them, except the twain fear that they may not observe the bonds of Allah. If yes fear that the twain may not observe the bonds of Allah, then no blame is on the twain for that where with she ransometh herself. These are the bonds of Allah, wherefore trespass them not; and whosoever trespasseth the bonds of Allah, then verily these! they are the wrong-doers.
M.M.Pickthall: Divorce must be pronounced twice and then (a woman) must be retained in honor or released in kindness. And it is not lawful for you that ye take from women aught of that which ye have given them; except (in the case) when both fear that they may not be able to keep within the limits (imposed by) Allah. And if ye fear that they may not be able to keep the limits of Allah, in that case it is no sin for either of them if the woman ransom herself. These are the limits (imposed by) Allah. Transgress them not. For whoso transgresseth Allah's limits: such are wrongdoers.
Saheeh International: Divorce is twice. Then, either keep [her] in an acceptable manner or release [her] with good treatment. And it is not lawful for you to take anything of what you have given them unless both fear that they will not be able to keep [within] the limits of Allah. But if you fear that they will not keep [within] the limits of Allah, then there is no blame upon either of them concerning that by which she ransoms herself. These are the limits of Allah, so do not transgress them. And whoever transgresses the limits of Allah - it is those who are the wrongdoers.
Shakir: Divorce may be (pronounced) twice, then keep (them) in good fellowship or let (them) go with kindness; and it is not lawful for you to take any part of what you have given them, unless both fear that they cannot keep within the limits of Allah; then if you fear that they cannot keep within the limits of Allah, there is no blame on them for what she gives up to become free thereby. These are the limits of Allah, so do not exceed them and whoever exceeds the limits of Allah these it is that are the unjust.
Yusuf Ali: A divorce is only permissible twice: after that, the parties should either hold Together on equitable terms, or separate with kindness. It is not lawful for you, (Men), to take back any of your gifts (from your wives), except when both parties fear that they would be unable to keep the limits ordained by Allah. If ye (judges) do indeed fear that they would be unable to keep the limits ordained by Allah, there is no blame on either of them if she give something for her freedom. These are the limits ordained by Allah; so do not transgress them if any do transgress the limits ordained by Allah, such persons wrong (Themselves as well as others).
======================================
 

آیت کے متعلق اہم نقاط

منفرد ایت
محکم ایت
طلاق کے سلسلے میں ہدایات
٭یا تو دستور کے مطابق میاں بیوی کی طرح رہنا ہے یا پھر باعزت طور پر طلاق کے ساتھ الگ ہوجانا اﷲ کی بنائی ہوئی حدود ہیں
ایک خاوند اپنی بیوی کو پوری زندگی میں صرف دو بار طلاق دے سکتا ہے۔ ان دو دفعہ طلاق کی عدت کے دوران یا تو بیوی کو رکھ لینا ہے یا پھر بالکل فارغ کر دینا ہے
عدت پوری ہونے کے بعد بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے اس لیے عدت پوری ہونے تک جو بھی فیصلہ ہے وہ کرنا ہے